Tuesday, 18 October 2011

تبدیلی نظام کی ضرورت


آج ہر شخص نظام کی خرابی اور اس میں تبدیلی کی بات کرتا ہے، جبکہ بعض لوگ (نام نہاد دانشور) نظام کو بچانے کی بھی بات کرتے ہیں۔ آئے اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ نظام کی تبدیلی کس قدر ضروری ہے؟ اور کب تبدیلی ناگزیر ہو جاتی ہے۔ 
اصل بات یہ ہے کہ جیسے کپڑے پہننے کے بعد بوسیدہ ہو جاتے ہیں لیکن بعض اوقات پیوند لگا کر کچھ عرصہ ان سے استفادہ کیا جا سکتا ہے، لیکن ایک وہ وقت بھی آتا ہے کہ کپڑا اس قدر بوسیدہ ہو جاتا ہے کہ پیوند لگنے کے قابل بھی نہیں رہتا۔ ایسی حالت میں کپڑا نیا خریدنا ہی پڑتا ہے۔ یہی حال نظام کا بھی ہے جس قدر اچھا نظام بھی آپ بنا لیں وہ ایک وقت آئے گا بوسیدہ ہو جائے گا، لیکن کچھ اصلاحی اقدامات سے قابلِ عمل رہے گا، لیکن پھر بگاڑ جب حد سے گزر جائے تو پھر اس کی اصلاح کی کوئی صورت نہیں رہتی، پھر اس کو بہر حال بدلنا ہی پڑتا ہے۔
ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ انگریزوں نے یہاں جو نظام قائم کیا تھا وہ اپنی اچھائیاں دکھانے کے بعد بوسیدہ ہو چکا تھا جب ہمیں آزادی ملی اور ہم نے ایک سنگین غلطی یہ کی کہ ہم نے اسی بوسیدہ نظام کو برقرار رکھا حالانکہ اس قدر بڑے انقلاب کے بعد نیا نظام مرتب کر لیتے تو بہتر تھا۔ اب یہ نظام بوسیدہ تر ہو چکا ہے، اب اس کو بدلنا نا گزیر ہو چکا ہے، اگر باہر سے کوئی نظام اس سے بہتر آیا تو وہ اس کی جگہ لے گا، ورنہ اندر سے تبدیلی اٹھے گی اور نظام بہر حال تبدیل ہو گا کیونکہ نظام کے بغیر ملک قائم نہیں رہ سکتا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کونسا نظام کامیاب ہو گا، پاکستان کے حالات کے تناظر میں دیکھیں تو یہاں پر بہر حال اسلامی نظام کا آنا مقدر ہو چکا ہے، کیونکہ وہی ایک نظام ہے جس پر سب کا اتفاق ہو سکتا ہے، کوئی شخص یہ کہہ سکتا  ہے کہ علماء کے اختلافات اس کو ناممکن بنا دیں گے، لیکن اصل بات یہ ہے کہ علماء کے اختلاف بھی اسی دورِ غلامی کی پیداوار ہیں یہ اختلافات جس فرقے کے علماء غالب آئیں گے ان کے ساتھ بالآخر ہم آہنگ ہو جائیں گے کیونکہ علماء کا روزگار عوام کے ساتھ وابستہ ہے اور عوام مقتدر قوتوں کے تابع ہوتے ہیں۔ (الناس علی دین ملوکہم) کہ لوگ بادشاہوں کے دین پر ہوتے ہیں۔ 

No comments:

Post a Comment

Note: only a member of this blog may post a comment.