یکساں نظامِ تعلیم ایک حقیقت یا خواب
آپ جانتے ہیں کہ اﷲ تبارک و تعالیٰ نے انسانوں کو دنیاوی اعتبار سے بڑا چھوٹا بنایا ہے، اسی حقیقت کا اظہار فلاسفہء یونان اور فلاسفہء ہند نے معاشرے کے مختلف طبقات بنا کر کیا۔ در حقیقت مختلف معاشرتی طبقات معاشرے کی گاڑی کو رواں رکھنے کے لیے ضروری ہیں۔ معاشرے کے اندر جہاں معلم کی ضرورت ہے وہیں ڈاکٹر کی بھی ضرورت ہے، وہیں ایک انجینئر بھی کل پرزوں کو رواں رکھنے کے لیے ضروری ہے، وہیں ایٹمی سائنسدان کی بھی ضرورت ہے، وہیں کارخانے میں کام کرنے والے مزدور کی بھی ضرورت ہے، اس سے کام لینے والے آجر کی بھی ضرورت ہے، حتیٰ کہ نالیاں صاف کرنے والے بھنگی کی بھی معاشرے کو ضرورت ہے، یہ سب مل کر معاشرے کو ایک مثالی معاشرہ بناتے ہیں۔ نہ تو پانچوں انگلیاں برابر ہیں اور نہ ہی معاشرے کے باسی افراد برابر ہیں۔ سب ایک دوسرے کے ساتھ متعلق ہیں اور ایک دوسرے پر اثر انداز ہونے پر مقرر ہیں۔ اگر ہم ان کو بالجبر برابر کرنے پر تل جائیں تو معاشرے کو برقرار رکھنا ممکن نہ رہے گا۔
بھلا سوچئے تو سہی کہ اگر ہم ڈاکٹر کا نصاب تمام ملک کے طلباء کو پڑھانا شروع کر دیں تو کیا ہو گا؟ کیا سب طلباء میں تشخیص و علاج کی صلاحیت پیدا ہو جائے گی؟ اور کیا وہ ڈاکٹر فیکٹریوں اور کارخانوں میں کام کرنے کے اہل ہوں گے؟ کیا وہ ڈاکٹر انجینئرنگ کے رموز و اوقاف سے واقف ہوں گے؟ نہیں ایسا ممکن ہی نہیں ۔ اسی طرح دوسرے شعبوں کو قیاس کریں تو یہ بات اظہر من الشمس ہو جاتی ہے کہ نظامِ تعلیم کا یکساں ہونا محض ایک خواب ہی ہے جو کہ کبھی حقیقت نہیں بن سکتا۔
اگر ہم اپنی معاشرتی تاریخ کا جائزہ لیں تو بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ زمانہ ماضی میں تاجر حضرات نے اپنے بچوں کو تجارتی رموز سکھانے کے لیے باقاعدہ معلم رکھے ہوئے ہوتے تھے، جنہوں نے تاجروں کے بچوں کے لیے مخصوص نصاب تیار کر رکھا ہوتا تھا، اسی طرح علماء دین نے اپنے لیے ایک الگ مخصوص نصاب تیار کر رکھا ہوتا تھا۔ مختلف صنعتوں سے وابستہ افراد نے اپنی صنعتوں اور فنون کے تدریس کے لیے الگ الگ نصاب وضع کر رکھے تھے۔ حتیٰ کہ بادشاہوں نے شہزادوں کے لیے جو اتالیق رکھے انہوں نے بھی شہزادوں کو رموزِ حکمرانی سکھانے کے لیے مخصوص نصاب بنا رکھا تھا۔
اس طرح اگر ہم مذہبی حوالے سے دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ قرونِ اولٰی میں مدینہ طیبہ میں بھی مختلف طبقاب موجود تھے۔ کہیں اصحابِ صفہ جیسے درویش صفت لوگ نظر آتے ہیں تو کہیں حضرت عثمانِ غنیؓ اور حضرت عبدالرحمن بن عوف جیسے مالدار لوگ نظر آتے ہیں۔ کہیں غلام نظر آتے ہیں تو کہیں آقا نظر آتے ہیں۔ کہیں عرب کے ان پڑھ امّی نظر آتے ہیں تو کہیں حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ اور عبداﷲ بن عباسؓ جیسے عالم فاضل اشخاص نظر آتے ہیں۔ کہیں زمیندار طبقہ اور کہیں کشور کشا جرنیل نظر آتے ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بالآخر لوگ یکساں نصابِ تعلیم کیوں چاہتے ہیں؟ اصل بات یہ ہے کہ جب تک ہم معاشرے کے تمام طبقات میں ایک دوسرے کے احترامِ باہمی اور ایک دوسرے کے حقوق و فرائض کے بارے میں معاشرتی شعور نہیں پیدا کرتے اس وقت تک طبقاتی تفریق مسائل پیدا کرتی رہے گی۔ اگر نصابِ تعلیم کو طلباء کے رحجانات سے ہٹ کر ہندوانہ انداز کے ذات پات کے رنگ میں ڈھال کر طبقاتی تفریق کو مستقل کرنے کی کوشش کی جائے تو یہ کوشش بذاتِ خود غلط ہی نہیں بلکہ معاشرے کی ترقی کے لیے زہرِ قاتل بھی ہو گی۔ اگر جولاہے کے بیٹے کے اندر ایک اچھا ڈاکٹر بننے کی صلاحیت ہو لیکن ایک اچھا جولاہا بننے کی صلاحیت نہ ہو ، اور ہم اسے زبردستی جولاہا بننے پر مجبور کریں تو یہ امر غلط ہے۔ اس طبقاتی تفریق کے نتیجے میں وجود میں آنے والے نظامِ تعلیم کو کوئی با شعور شخص اچھا نہیں کہہ سکتا۔
امید ہے کہ میرے اس خط سے یہ بات واضح ہو چکی ہو گی کہ یکساں نظام کا نعرہ لگانا محض ایک دیوانے کی بڑ ہے، علوم کی وسعت کے پیشِ نظر اب ہر میدان میں ماہرین کے لیے الگ الگ نظامِ تعلیم مرتب کیا جائے جس میں بچوں کے رحجان کے پیشِ نظر انہیں اپنی پسند کے میدانوں میں ترقی کے جوہر دکھانے کے مواقع دیے جائیں۔ لیکن ایک بات واضح رہے کہ ابتدائی تعلیم ہر حال میں یکساں نصاب کے تحت اور ایک جیسے سوشیو اکنامک ماحول میں دی جائے تاکہ بچوں میں ایک دوسرے کو سمجھنے اور احترامِ باہم کے جذبات پیدا ہو سکیں۔