Thursday, 20 October 2011

یکساں نظامِ تعلیم ایک حقیقت یا خواب


یکساں نظامِ تعلیم ایک حقیقت یا خواب
 آپ جانتے ہیں کہ اﷲ تبارک و تعالیٰ نے انسانوں کو دنیاوی اعتبار سے بڑا چھوٹا بنایا ہے، اسی حقیقت کا اظہار فلاسفہء یونان اور فلاسفہء ہند نے  معاشرے کے مختلف طبقات بنا کر کیا۔ در حقیقت مختلف معاشرتی طبقات معاشرے کی گاڑی کو رواں رکھنے کے لیے ضروری ہیں۔ معاشرے کے اندر جہاں معلم کی ضرورت ہے وہیں ڈاکٹر کی بھی ضرورت ہے، وہیں ایک انجینئر بھی کل پرزوں کو رواں رکھنے کے لیے ضروری ہے، وہیں ایٹمی سائنسدان کی بھی ضرورت ہے، وہیں کارخانے میں کام کرنے والے مزدور کی بھی ضرورت ہے، اس سے کام لینے والے آجر کی بھی ضرورت ہے، حتیٰ کہ نالیاں صاف کرنے والے بھنگی کی بھی معاشرے کو ضرورت ہے، یہ سب مل کر معاشرے کو ایک مثالی معاشرہ بناتے ہیں۔ نہ تو پانچوں انگلیاں  برابر ہیں اور نہ ہی معاشرے کے باسی افراد برابر ہیں۔ سب ایک دوسرے کے ساتھ متعلق ہیں اور ایک دوسرے پر اثر انداز ہونے پر مقرر ہیں۔ اگر ہم ان کو بالجبر برابر کرنے پر تل جائیں تو معاشرے کو برقرار رکھنا ممکن نہ رہے گا۔
بھلا سوچئے تو سہی کہ اگر ہم ڈاکٹر کا نصاب تمام ملک کے طلباء کو پڑھانا شروع کر دیں تو کیا ہو گا؟ کیا سب طلباء میں تشخیص و علاج  کی صلاحیت پیدا ہو جائے گی؟ اور کیا وہ ڈاکٹر فیکٹریوں اور کارخانوں میں کام کرنے کے اہل ہوں گے؟ کیا وہ ڈاکٹر انجینئرنگ کے رموز و اوقاف سے واقف ہوں گے؟ نہیں ایسا ممکن ہی نہیں ۔ اسی طرح دوسرے شعبوں کو قیاس کریں تو یہ بات اظہر من الشمس ہو جاتی ہے کہ نظامِ تعلیم کا یکساں ہونا محض ایک خواب ہی ہے جو کہ کبھی حقیقت نہیں بن سکتا۔
اگر ہم اپنی معاشرتی تاریخ کا جائزہ لیں تو بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ زمانہ ماضی میں تاجر حضرات نے اپنے بچوں کو تجارتی رموز  سکھانے کے لیے باقاعدہ معلم رکھے ہوئے ہوتے تھے، جنہوں نے تاجروں کے بچوں کے لیے مخصوص نصاب تیار کر رکھا ہوتا تھا، اسی طرح علماء دین نے اپنے لیے ایک الگ مخصوص نصاب تیار کر رکھا ہوتا تھا۔ مختلف صنعتوں  سے وابستہ افراد نے اپنی صنعتوں اور فنون کے تدریس کے لیے الگ الگ نصاب وضع کر رکھے تھے۔  حتیٰ کہ بادشاہوں نے شہزادوں کے لیے جو اتالیق رکھے انہوں نے بھی شہزادوں کو رموزِ حکمرانی سکھانے کے لیے مخصوص نصاب  بنا رکھا تھا۔
اس طرح اگر ہم مذہبی حوالے سے دیکھیں تو  معلوم ہو گا کہ قرونِ اولٰی میں مدینہ طیبہ میں بھی مختلف طبقاب موجود تھے۔ کہیں اصحابِ صفہ جیسے درویش صفت لوگ نظر آتے ہیں تو کہیں حضرت عثمانِ غنیؓ اور حضرت عبدالرحمن بن عوف جیسے مالدار لوگ نظر آتے ہیں۔ کہیں غلام نظر آتے ہیں تو کہیں آقا نظر آتے ہیں۔ کہیں عرب کے ان پڑھ امّی نظر آتے ہیں تو کہیں حضرت  عبداﷲ بن مسعودؓ اور عبداﷲ بن عباسؓ جیسے عالم فاضل اشخاص نظر آتے ہیں۔ کہیں زمیندار طبقہ اور کہیں کشور کشا جرنیل نظر آتے ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بالآخر  لوگ یکساں نصابِ تعلیم کیوں چاہتے ہیں؟ اصل بات یہ ہے کہ جب تک ہم معاشرے کے تمام طبقات میں ایک دوسرے کے احترامِ باہمی اور ایک دوسرے کے حقوق و فرائض کے بارے میں معاشرتی شعور نہیں پیدا کرتے  اس وقت تک طبقاتی تفریق مسائل پیدا کرتی رہے گی۔ اگر نصابِ تعلیم کو طلباء کے رحجانات سے ہٹ کر ہندوانہ انداز کے ذات پات کے رنگ میں ڈھال کر طبقاتی تفریق  کو مستقل کرنے کی کوشش کی جائے تو یہ کوشش بذاتِ خود غلط ہی نہیں بلکہ معاشرے کی ترقی کے لیے زہرِ قاتل بھی ہو گی۔ اگر جولاہے کے بیٹے کے اندر ایک اچھا ڈاکٹر بننے کی صلاحیت ہو لیکن ایک اچھا جولاہا بننے کی صلاحیت نہ ہو ، اور ہم اسے زبردستی جولاہا بننے پر مجبور کریں تو یہ امر غلط ہے۔ اس طبقاتی تفریق کے نتیجے میں وجود میں آنے والے نظامِ تعلیم کو کوئی با شعور شخص اچھا نہیں کہہ سکتا۔
امید ہے کہ میرے اس خط سے یہ بات واضح ہو چکی ہو گی کہ یکساں نظام کا نعرہ لگانا محض ایک دیوانے کی بڑ ہے، علوم کی وسعت کے پیشِ نظر اب ہر میدان میں ماہرین کے لیے الگ الگ نظامِ تعلیم مرتب کیا جائے جس میں بچوں کے رحجان کے پیشِ نظر انہیں اپنی پسند کے میدانوں میں ترقی کے جوہر دکھانے کے مواقع دیے  جائیں۔  لیکن ایک بات واضح رہے کہ ابتدائی تعلیم ہر حال میں یکساں نصاب کے تحت اور ایک جیسے سوشیو اکنامک ماحول میں دی جائے تاکہ بچوں میں ایک دوسرے کو سمجھنے اور احترامِ باہم کے جذبات پیدا ہو سکیں۔

Tuesday, 18 October 2011

تبدیلی نظام کی ضرورت


آج ہر شخص نظام کی خرابی اور اس میں تبدیلی کی بات کرتا ہے، جبکہ بعض لوگ (نام نہاد دانشور) نظام کو بچانے کی بھی بات کرتے ہیں۔ آئے اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ نظام کی تبدیلی کس قدر ضروری ہے؟ اور کب تبدیلی ناگزیر ہو جاتی ہے۔ 
اصل بات یہ ہے کہ جیسے کپڑے پہننے کے بعد بوسیدہ ہو جاتے ہیں لیکن بعض اوقات پیوند لگا کر کچھ عرصہ ان سے استفادہ کیا جا سکتا ہے، لیکن ایک وہ وقت بھی آتا ہے کہ کپڑا اس قدر بوسیدہ ہو جاتا ہے کہ پیوند لگنے کے قابل بھی نہیں رہتا۔ ایسی حالت میں کپڑا نیا خریدنا ہی پڑتا ہے۔ یہی حال نظام کا بھی ہے جس قدر اچھا نظام بھی آپ بنا لیں وہ ایک وقت آئے گا بوسیدہ ہو جائے گا، لیکن کچھ اصلاحی اقدامات سے قابلِ عمل رہے گا، لیکن پھر بگاڑ جب حد سے گزر جائے تو پھر اس کی اصلاح کی کوئی صورت نہیں رہتی، پھر اس کو بہر حال بدلنا ہی پڑتا ہے۔
ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ انگریزوں نے یہاں جو نظام قائم کیا تھا وہ اپنی اچھائیاں دکھانے کے بعد بوسیدہ ہو چکا تھا جب ہمیں آزادی ملی اور ہم نے ایک سنگین غلطی یہ کی کہ ہم نے اسی بوسیدہ نظام کو برقرار رکھا حالانکہ اس قدر بڑے انقلاب کے بعد نیا نظام مرتب کر لیتے تو بہتر تھا۔ اب یہ نظام بوسیدہ تر ہو چکا ہے، اب اس کو بدلنا نا گزیر ہو چکا ہے، اگر باہر سے کوئی نظام اس سے بہتر آیا تو وہ اس کی جگہ لے گا، ورنہ اندر سے تبدیلی اٹھے گی اور نظام بہر حال تبدیل ہو گا کیونکہ نظام کے بغیر ملک قائم نہیں رہ سکتا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کونسا نظام کامیاب ہو گا، پاکستان کے حالات کے تناظر میں دیکھیں تو یہاں پر بہر حال اسلامی نظام کا آنا مقدر ہو چکا ہے، کیونکہ وہی ایک نظام ہے جس پر سب کا اتفاق ہو سکتا ہے، کوئی شخص یہ کہہ سکتا  ہے کہ علماء کے اختلافات اس کو ناممکن بنا دیں گے، لیکن اصل بات یہ ہے کہ علماء کے اختلاف بھی اسی دورِ غلامی کی پیداوار ہیں یہ اختلافات جس فرقے کے علماء غالب آئیں گے ان کے ساتھ بالآخر ہم آہنگ ہو جائیں گے کیونکہ علماء کا روزگار عوام کے ساتھ وابستہ ہے اور عوام مقتدر قوتوں کے تابع ہوتے ہیں۔ (الناس علی دین ملوکہم) کہ لوگ بادشاہوں کے دین پر ہوتے ہیں۔ 

Thursday, 6 October 2011

مسلمان ایک عظیم قوم ہیں... محمد مسلم


مسلمان عجیب قوم.........؟ محمد مسلم
چند روز قبل بندہ صبح سیر کے لیے نکلا تو میرے ایک استادِ محترم سرِ راہ ملے اور واک میں ساتھ ہو لیے۔ انہوں نے ایک بات کی جس پر میں ان کے ساتھ متفق نہیں ہو سکا۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلمان بھی عجیب قوم ہیں جنہوں نے اپنے پیغمبر کے اس دنیا سے رخصت ہونے کے تھوڑے ہی عرصے بعد ان کے نواسے کو شہید کر دیا۔ میرا موقف تھا کہ مسلمان ایک عظیم قوم ہیں جن کے پیغمبر کے خاندان نے حق کی خاطر قربانی دینے کی طرح ڈالی۔ کسی بھی ریاست، یا کسی بھی مذہب کے بانی کے اہلِ خانہ عام طور پر عیاش طبع ہوتے ہیں اور اپنے جدِ امجد کے نام پر دنیاوی منفعت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور بعض صورتوں میں تو اجداد کی میراث کو بانٹتے بانٹتے اس میراث کا حلیہ بھی بگاڑ دیتے ہیں خواہ وہ میراث علمی میراث ہی کیوں نہ ہو۔ اسلام ایک عظیم مذہب اس لیے ہے کہ اس کے پیغمبرﷺ نے اہلِ خانہ نے حق کی خاطر قربانی دے کر پوری امت کے لیے ایک عظیم یاد گار قائم کر دی ہے۔ اقتدار کے بھوکے تو ہر قوم اور قبیلے میں مل جاتے ہیں، باطل کے پجاری بھے عام ہوتے ہیں، حق کے پیرو بھی عام ہوتے ہیں لیکن حق کی خاطر ڈٹ جانے والے اور اس کے لیے جان قربان کرنے والے نہایت کم ہوتے ہیں اور یہی لوگ قوم کا سرمایہ افتخار ہوتے ہیں۔ اقتدار کو چھوڑ کے دوسروں کے حق میں دستبردار ہونے والے تاکہ قوم متحد ہو جائے بھی خال ہوتے ہیں اور ہم بحیثیت مسلمان خوش قسمت ہیں کہ نبی اکرمﷺ کے دونوں نواسوں نے عظیم الشان مثالیں قائم کی ہیں۔ ایک نے حق کی خاطر جان قربان کرکے اور دوسرے نے اقتدار قربان کر کے۔ اگر حضرت حسینؓ جان کی قربانی پیش نہ کرتے تو امت کے اندر حق کی خاطر لڑنے مرنے کا جذبہ کبھی پیدا نہ ہوتا۔ ہر جابر سلطان کے آگے کلمہ حق کہنے کی رسم کی عملی بنیاد تو انہی شہزادوں نے ڈالی ہے جب پر امت ہر دور میں کسی نہ کسی شکل میں کار بند رہی ہے جس کی مثال دوسری امتوں میں ملنا محال ہے۔
مسلمان ایک عظیم قوم ہیں، جو جس کو حق سمجھیں اس پر ڈٹ جاتے ہیں، پھر جان جاتی ہے تو جائے وہ سرِ مو اپنے موقف سے انحراف نہیں کرتے۔
مسلمان ایک عظیم قوم ہیں، جو حق کو باطل کے ساتھ خلط ملط نہیں کرتے، حق کو خالص رکھنے کی کوشش ہر دور میں کرتے رہتے ہیں۔
مسلمان ایک عظیم قوم ہیں، جن کے بڑوں نے حق کے لیے قربانیوں کی مثالیں قائم چھوڑی ہیں اور چھوٹے ان قربانیوں کو اپنے لیے مشعلِ راہ بنائے ہوئے ہیں۔
مسلمان ایک عظیم قوم ہیں جنہوں نے من حیث القوم کبھی منافقت کو قبول نہیں کیا، ہمیشہ کچھ لوگ امت میں موجود رہے ہیں جو منافقت اور باطل کا کھلم کھلا رد کرتے رہے ہیں، اور کر رہے ہیں۔
اختلاف کا حق ہر کسی کو حاصل ہے، یہ میرا ذوق تھا جس پر میں اپنے استادِ محترم سے اتفاق نہ کرسکا۔ میں اپنے خیال میں ٹھیک ہوں لیکن شاید غلط میرے استاد بھی نہیں ہیں۔ 

امتِ مسلمہ کی خود اصلاحی کی صلاحیت ... ... محمد مسلم


اس امت کی بنیاد ہی اﷲ تعالیٰ نے دین اور وحدتِ امت کے نام پر اٹھائی ہے، جب بھی یہ بنیاد کمزور ہونا شروع ہوتی ہے تو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش کا ایک تازیانہ برستا ہے تاکہ ہم لوگ پھر سے یک جان ہو جائیں، اس کے بعد امت واقعتاً یک جان ہو کر ایک بار پھر کامیابی کی راہ پر چل پڑتی ہے۔ اسلام کے اندر امام مہدی کی آمد کا تصور، عیسیٰ علیہ السلام کی آمد کا تصور، ہر صدی میں مجدد کی آمد کا تصور اسی قوتِ خود اصلاحی کا سبب بنتا ہے۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ امام مہدی کی آمد کے تصور نے ہر دور میں اسلام کو ایک نئی اصلاحی قوت سے نوازا ہے، قطع نظر اس سے کہ وہ واقعتاً امام مہدی بھی تھے یا نہیں۔ میں مانتا ہوں کہ امام مہدی کے مسئلہ پر امت مسلمہ میں بھی بہت سے اختلافات ہیں، بعض لوگ تو اس تصور کا مذاق بھی اڑاتے ہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ یہ تصور ایک زندہ و جاوید مذہب کے لیے ضروری ہے جس کے باعث اسلام کی لچک کو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق بنایا جاتا ہے، مسلمانوں میں موجود غلط اوہام اور خیالات کی اصلاح کی جاتی ہے ، انہیں گفتار سے کردار کی طرف لایا جاتا ہے، ان میں نفاق کو ختم کرکے یقین کو پختہ کیا جاتا ہے اور کسی ایک نقطہ پر پھر انہیں متحد کرکے دوبارہ احیاءِ اسلام کی راہ ہموار کی جاتی ہے۔ اگرچہ بعض اوقات مہدی اور مجدد کی آڑ میں بعض طالع آزماؤں نے اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے کی کوششیں بھی کیں جن میں حسن صباح اورمرزا غلام احمد قادیانی جیسے اشخاص بھی شامل ہیں۔ ہم سب اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ مہدی سوڈانی، مہدی نہ تھے لیکن انہوں نے برطانوی راج کے خلاف جو جدوجہد کی اور جو جذبہ مزاحمت افریقی مسلمانوں میں پھونکا اس کے سب معترف ہیں۔  اسی طرح عبداﷲ بن یاسین جس کے پیروکاروں میں یوسف بن تاشفین کا نام آتا ہے انہوں نے بھی دعوائے مہدویت کیا تھا، اور انہوں نے مغرب العربی (مراکش) اور اندلس کے علاقوں کے مسلمانوں کے لیے نہایت شاندار کارنامے سرانجام دیئے۔ اسی طرح مجدد کا معاملہ ہے، مجدد تو خیر کوئی بھی شخص ہو سکتا ہے اس پر اختلافات کم ہوتے ہیں کیونکہ مہدی تو ایک ہی سچا ہو گا جبکہ مجدد ہر صدی میں ایک آتا ہے جو کہ ان خرابیوں کی اصلاح کرتا ہے جو مسلمانوں میں کسی اصلاحی تحریک کے وجود نہ ہونے کے باعث پیدا ہوجاتی ہیں۔ بعض اوقات یہ خرابیاں محض وعظ اور درس و تدریس سے درست ہو جاتی ہیں لیکن بعض اوقات ان کی اصلاح اس طرح سے ہونا ممکن نہیں ہوتی تو پھر اصلاح امت کے لیے اﷲ تعالیٰ کسی بیرونی حملہ آور کو مسلط کر دیتے ہیں تاکہ یہ لوگ حالات کے تھپیڑے کھا کر سنبھل جائیں۔ فتنہ تاتار یا فتنہ مغرب یہ عذاب ہی نہیں بلکہ دراصل امت کے بگڑے ہوئے حصے کے لیے عملِ جراحی بھی تھا جس کے بعد امت نے کسی حد تک سنبھالا لیا اور وہ نزاعی بحثیں جنہوں نے امت کے بڑے طبقوں کو آپس میں لڑوا دیا تھا دم توڑ گئیں۔
کون تصور کر سکتا تھا کہ خلقِ قرآن، جبر و قدر کے مسائل، معتزلہ کی موشگافیاں ختم ہو پائیں گی، لیکن سب آہستہ آہستہ دم توڑ گئیں۔ کون تصور کر سکتا تھا کہ ہند میں ہندو مت کے اثرات کی آمیزش سے درباروں میں جو دینِ الٰہی پنپ رہا تھا کبھی ختم ہو پائے گا، لیکن یہ سب فتنے ایک مخصوص عرصے کے بعد غائب سے اصلاحی اسباب میسر آنے کے بعد دم توڑ گئے۔ یہی خود اصلاحی کی صلاحیت اسلام کو دوسرے ادیان سے ممتاز کرتی ہے کہ دوسرے ادیان بدلتے ہوئے تقاضوں کا ساتھ نہ دینے کے باعث یا تو اپنا حلیہ مکمل طور پر تبدیل کر کے اپنی بنیاد سے ہی منحرف ہو جاتے ہیں یا نئے تقاضوں سے کنارہ کش ہو کر خانقاہوں، اور عبادت گاہوں تک محدود ہو جاتے ہیں۔ یہی بنیادی فرق ہے جس کو نہ سمجھنے کے باعث یورپ ہم سے نالاں ہے۔ وہ یہ سمجھتا ہے کہ جیسے یورپ نے مذہبِ عیسوی سے جان چھڑا کر ترقی کی راہ کو پایا ہے ایسے ہی اسلامی مشرق بھی دینِ اسلام سے ناتا توڑ کر ترقی (بزعمِ خود) کی راہ پر چلے۔ وہ اس بات کو نہیں سمجھ پا رہے کہ مذہبِ عیسوی کے جمود اور اصل روح سے محرومی کے باعث وہ جدید تقاضوں کا ساتھ نہ دے سکتا تھا جبکہ اسلام اپنی لچک کے باعث جدید تقاضوں کے مطابق ڈھل جاتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اپنی بنیاد کو بھی نہیں ہلنے دیتا۔ یعنی اسلام نے جدت اور قدامت میں امتزاج پیدا کر رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے قرآن پاک میں احکامات اجمالاً بیان فرمائے ہیں اور حضورﷺ نے احادیث میں احکامات کو مجملاً ہی بیان فرمایا ہے تاکہ آنے والوں کے لیے نئی تشریح و تعبیر کا راستہ کھلا رہے اور دینِ اسلام محض جامد دین نہ بن کر رہ جائے۔ بعض اوقات صحابہ کرام زیادہ سوالات کرتے تو آپﷺ اس بات پر ناراض بھی ہوتے تھے تاکہ راستہ موجود رہیں۔
اسلامی قانون سازی کے میدان میں بھی اسی بات کو اہمیت حاصل ہوئی کہ جس مکتبہ فکر نے زیادہ لچک رکھی اس کو ہر دور کے حکمرانوں نے زیادہ ترجیح دی کیونکہ ان کو کاروبارِ حکومت چلانے کے لیے بہتر لچک اس میں مل جاتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ فقہ حنفی دوسری فقہوں کے مقابلے میں حکمرانوں کی زیادہ پسندیدہ رہی ہے کیونکہ یہ حاکمِ وقت کو کافی حد تک اجتہادی اختیارات دے دیتی ہے جبکہ دوسری فقہیں ظاہرِ قرآن و سنت کے ساتھ زیادہ شدت کے ساتھ پیوستہ رہنے کے باعث اس قدر لچک نہیں رکھتیں۔
موجودہ حالات میں امتِ مسلمہ اپنے زوال کی آخری حدوں کو چھو رہی ہے اور ہر تاریکی کے دامن میں روشنی کے خواب ہوتے ہیں، تاریک بادلوں کے پیچھے روشن خورشید چھپا ہوتا ہے۔ ہمیں پر امید رہنا چاہئے کہ امت پھر ایک بار پھر بیدار ہو رہی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے گفتار اور کردار سے اس بیداری کے لیے اپنا کردار ادا کرنا بھی ضروری ہے تاکہ قافلہ حجاز کے لیے حدی خوانوں کی کمی نہ ہو۔ امت کے مصائب پر مذاق نہ اڑائیے بلکہ ان سے چھٹکارے میں حصہ ڈالیں۔
شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

Friday, 30 September 2011

انگور اور شراب


انگور اور شراب
مشہور شامی مصنف عادل ابو شنب نے اپنی کتاب شوام ظرفاء میں عرب مُلک شام میں متعین فرانسیسی کمشنر کی طرف سے دی گئی ایک ضیافت میں پیش آنے والے ایک دلچسپ واقعے کا ذکر کیا ہے۔ اُن دنوں یہ خطہ فرانس کے زیر تسلط تھا اور شام سمیت کئی آس پاس کے مُلکوں کیلئے ایک ہی کمشنر (موریس سارای) تعینات تھا۔ کمشنر نے اس ضیافت میں دمشق کے معززین، شیوخ اور علماء کو مدعو کیا ہوا تھا۔
اس ضیافت میں ایک سفید دستار باندھے دودھ کی طرح سفید ڈاڑھی والے بزرگ بھی آئے ہوئے تھے۔ اتفاق سے اُنکی نشست کمشنر کے بالکل آمنے سامنے تھی۔  کمشنر نے دیکھا کہ یہ بزرگ کھانے میں ہاتھ ڈالے مزے سے ہاتھوں کے ساتھ کھانا کھا رہا ہے جبکہ چھری کانٹے اُس کی میز پر موجود ہیں۔ ایسا منظر دیکھ کر کمشنر صاحب کا کراہت اور غُصے سے بُرا حال ہو رہا تھا۔ نظر انداز کرنے کی بہت کوشش کی مگر اپنے آپ پر قابو نا پا سکا۔ اپنے ترجمان کو بُلا کر کہا کہ اِس شیخ صاحب سے پوچھے کہ آخر وہ ہماری طرح کیوں نہیں کھاتا؟
شیخ صاحب نے ترجمان کو دیکھا اور نہایت ہی سنجیدگی سے جواب دیا؛ تو تمہارا خیال ہے کہ میں اپنئ ناک سے کھا رہا ہوں؟
کمشنر صاحب نے کہا، نہیں ایسی بات نہیں، ہمارا مطلب یہ ہے کہ تم چھری اور کانٹے کے ساتھ کیوں نہیں کھاتے؟
شیخ صاحب نے جواب دیا؛ مُجھے اپنے ہاتھوں کی صفائی اور پاکیزگی پر پورا یقین اور بھروسہ ہے، کیا تمہیں بھی اپنے چھری اور کانٹوں پر کی صفائی اور پاکیزگی پر اتنا ہی بھروسہ ہے؟
شیخ صاحب کے جواب سے کمشنر جل  بھن کر رہ گیا، اُس نے تہیہ کر لیا کہ اس اہانت کا بدلہ تو ضرور لے گا۔
کمشنر کی میز پر اُس کے دائیں طرف اُسکی بیوی اور بائیں طرف اُسکی بیٹی بھی ساتھ بیٹھی ہوئی تھی۔ چہ جائیکہ کمشنر عربوں کی ثقافت، روایات اور دینداری سے واقف تھا، مزید براں اُس نے اس ضیافت میں شہر کے معززین اور علماء کو مدعو کر رکھا تھا۔ مگر  ان سب روایتوں کو توڑتے ہوئے اُس نے اپنے لئے شراب منگوائی اور شیخ صاحب کو جلانے کی خاطر نہایت ہی طمطراق سے اپنے لیئے، اپنی بیوی اور بیٹی کیلئے گلاسوں میں اُنڈیلی۔
اپنے گلاس سے چُسکیاں لیتے ہوئے شیخ صاحب سے مخاطب ہو کر کہا؛ سنو شیخ صاحب، تمہیں انگور اچھے لگتے ہیں اور تم کھاتے بھی ہو، کیا ایسا ہے ناں؟
شیخ صاحب نے مختصراً کہا، ہاں،۔
کمشنر نے میز پر رکھے ہوئے انگوروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا؛ یہ شراب ان انگوروں سے نکالی  ہوئی ہے۔ تم انگور تو کھاتے ہو مگر شراب کے نزدیک بھی نہیں لگنا چاہتے!
ضیافت میں موجود ہر شخص کمشنر اور شیخ صاحب کے درمیان پیش آنے والی اس ساری صورتحال سے آگاہ ہو چکا تھا۔ سب کے چہروں سے نادیدہ خوف کے سائے نظر آ رہے تھے اور ہر طرف خاموشی تھی۔ مگر اس شیخ صاحب کے نا تو کھانے سے ہاتھ رُکے اور نا ہی چہرے پر آئی مسکراہٹ میں کوئی فرق آیا تھا۔
کمشنر کو مخاطب کرتے ہو ئے شیخ صاحب نے کہا؛ یہ تیری بیوی ہے اور یہ تیری بیٹی ہے۔ یہ والی اُس سے آئی ہوئی ہے۔ تو پھر کیوں ایک تو تیرے اوپر حلال ہے اور دوسری حرام ہے؟
مصنف لکھتا ہے کہ اسکے بعد کمشنر نے فوراً ہی اپنی میز سے شراب اُٹھانے کا حُکم دیدیا تھا۔

یہ تحریر محترم جناب کاشف مجید صاحب کی سائٹ سے لی گئی ہے 

Friday, 23 September 2011

تین شہید- محترم نعیم صدیقی رحمۃ اﷲ علیہ کی ایک شاہکار نظم

شہداء کی نعشیں

شہداء کی نعشوں کو یہ منظوم خراجِ عقیدت اور ان کے شہید جسموں سے اٹھتی ہوئی پکار کو الفاظ روپ کوئی چار عشرے قبل اس وقت دیا گیا تھا جب مصر میں سیّد قطبؒ سمیت اخوان المسلمون کے تین عظیم راہنماؤں کو پھانسی دی گئی تھی۔ راہِ حق پر چلنے والوں کی شہادتوں کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
شاعر : نعیم صدیقی رحمۃ اﷲ علیہ
ادب سے اس نعش کو اتارو
رسن کا حلقہ ادب سے کھولو
دبے دبے پاؤں، ہولے ہولے، سبک سبک طرز سے چلو یہاں
ادب سے لو سانس، دھیما دھیما، بلند آواز میں نہ بولو
تمام دیوار و در سجاؤ، تمام ماحول کو سنوارو
درود پڑھ کر، سلام کہہ کر، یہاں پہ نظرِ وفا گزارو!
ادب سے اس نعش کو اتارو!
یہ نعش زندہ شہید کی ہے
شہید!... جس نے اذیتوں سے مئے تمنا کشید کی ہے
شہید!... جس نے بدن کے بدلے حیاتِ دائم خرید کی ہے
یہ پاک میت ہے ایک سورج! ضیا یہ صبحِ امید کی ہے
شہید کی نعش کے ادب میں
تمام تاریخ رک گئی ہے
زماں کی گردش ٹھہر گئی ہے
ہیں علم و فن دست بستہ حاضر
شہید کی نعش کے ادب میں تمام تہذیب جھک گئی ہے
وہ روحِ سقراط آرہی ہے، جلو میں شاگرد اپنے لے کر
ادھر سے دیکھو حسینؓ بسمل!
یہ ابن حنبلؒ، امام مالکؒ، اُدھر جنابِ ابو حنیفہؒ!
کسی کے ہاتھوں میں تیغ براں کوئی لیے خامۂ و صحیفہ!
سدا بہار اپنے زخم لے کر، پرو کے زخموں کے ہار لائے
مری نگاہیں یہ دیکھتی ہیں
فلک سے قدسی اتر رہے ہیں
پرے وہ باندھے ہوئے مسلسل صلیب گہہ سے گزر رہے ہیں
وہ حوریں آئیں اٹھائے پرچم
نئے شہیدوں کا خیر مقدم حکایتِ جہدِ آدمی کا یہ نعش عنواں بن گئی ہے
یہ جانِ ایماں بن گئی ہے! یہ حشر ساماں بن گئی ہے
ادب سے اس نعش کو اتارو!
ایک... دو... تین... تازہ لاشیں
جیسے تربوز کی کسی نے چھری سے کاٹی ہوں تازہ قاشیں
نئی نئی فصل زندگی کی!
ہر ی بھری فصل زندگی کی! ابھی ابھی پل میں کٹ گئی ہے!
یہ تین لاشیں!
اور ان کے پیچھے ہزاروں لاشیں!
میرے چمن کی یہ تین شاخیں کٹی پڑی ہیں
یہ تین غنچے مسل گئے ہیں
مگر ذرا نقطہ نظر کو مرے رفیقو! بدل کے دیکھو
یہ تین غنچے نئے کھلے ہیں
ہماری تاریخ کے چمن میں، ہوائے فصلِ بہار آئی
یہ شاخِ ایثارِ مومنانہ، نئے سرے سے نکھار آئی
مشامِ جاں ہو رہا ہے تازہ کہ نگہتِ کوئے یار آئی
قطارِ اشتر ہوں جیسے بادل، نسیم تھامے مہار آئی
لہو کے برکھا میں بھیگی بھیگی، بہار، مثلِ نگار آئی
نوید لے اڑی جو بلبل، زمانے بھر میں پکار آئی
کنارِ مشہد کھڑا ہوں ساکت
یہاں پہ یادِحبیب آئی! وہ آئی اور بار بار آئی
یہ تین غنچے نئے کھلے ہیں
یہ چوبِ خشک صلیب خونیں، یہ تین غنچے نئے کھلے ہیں
یہ شاخِ شمشیر ظلم آگئیں، یہ تین غنچے نئے کھلے ہیں
یہ تین غنچے مہک رہے ہیں!
یہ تین تارے چمک رہے ہیں!
یہ تین موتی دمک رہے ہیں!
یہ تین ساغر چھلک رہے ہیں!
یہ تینوں، بامِ حرم کے طائر جو تیر کھا کے پھڑک رہے ہیں!
یہ پیاری لاشیں!
ہماری کل زندگی کا حاصل!
یہ زندگی... یہ فسادِ پیہم کہ جس میں کوئی سکوں نہیں ہے
تمام سود و زیاں کے چکر! کہیں فروغِ جنوں نہیں ہے
یہ زندگی!... یہ جمودِ دائم کہ جس میں اک موجِ خوں نہیں ہے!
یہ زندگی!... یہ عذابِ دوزخ کہ جس میں سوزِ دروں نہیں ہے
یہ تین لاشیں!
مجھ ایسے لاکھوں کی زندگی سے گراں بہا تر!
ہٹو، کرائے کے چوبیدارو!
مجھے قدم ان کے چومنے دو!
میرے عقیدت کو جھومنے دو!
یہ تین لاشیں! یہ پیاری لاشیں
اور ان کے پیچھے، کئی صدیوں کے طویل صحرا میں لاکھوں لاشیں!
طویل صحرا... کہ جن میں چھایا ہوا دھندلکا
رہِ محبت کے سارے راہی
تمام  ساتھی! تمام اخواں! یہ عاشقوں کی برادری ہے!
سبھی کا ایک رشتہ اخوت!
سبھی کی ہے ایک سی حکایت!
سبھی کی ایک مشترک روایت!
کسی کی میت وہاں گری تھی! کسی کی میت یہاں گری ہے!
یہ میتیں ہیں ہماری دولت!
انہی سے تحریکِ زندگی ہے!
.........
یہ تین لاشیں!
انہی کی جانب امڈ پڑی ہیں فضاؤں سے صبح کی شعاعیں
 کوئی سنہری، کوئی  روپہلی!
کہ جیسے انجیل کی زباں میں کنواریوں کے حسین جھرمٹ
کہ جیسے پنہاریاں بہم ہوں، گھڑے لیے، گاگریں اٹھائے
کہ جیسے مشہد ہو کوئی چشمہ!
کہ جیسے مقتل ہو کوئی پنگھٹ
تمام انوار صبح نو کے، یہیں پہ آکے سمٹ رہے ہیں
تمام چہرے صداقتوں کے یہیں پہ پردے الٹ رہے ہیں
سنو، سنو! ظلمتوں کے مارو!
یہیں سے کچھ روشنی ملے گی
وگرنہ ہر سمت ہیں اندھیرے
یہ سب اندھیروں کی راجدھانی
یہ جیتے اور جاگتے اندھیرے
یہ فتنہ گر، سوچتے اندھیرے
جو ہر کرن پہ جھپٹ رہے ہیں
وجودِ وضو سے عذاب ان کو کہ دل ہی میں وہ کٹ رہے ہیں
وہ جتنے جتنے ہوئے گھنیرے، وہ اتنے اتنے ہی گھٹ رہے ہیں
بہم گر سب لپٹ رہے ہیں
مگر یہی دار وہ افق ہے، جہاں سے پھوٹا نیا اجالا
شعاعوں کا سیل آرہا ہے، نہ روک پائے جسے ہمالا
سحر تو ہوگی، ضرور ہوگی، یہی ہے قانونِ حق تعالٰی
...............
اتار لو اب یہ تین لاشیں، بہ فرشِ سبزہ اٹھا کہ رکھو
ادب سے ان کو سجا کے رکھو
بلاؤ اس مردِ آہنی کو
دکھاؤ اس مردِ آہنی کو
اسے پکارو
کنارِ بامِ بلند آکر، وہ کشتگانِ وفا کو دیکھے
وہ اہلِ صدق و صفا کو دیکھے، وہ اہلِ صبر و رضا کو دیکھے
فنا کا پیغام دینے والا، اب ان کی شانِ بقا کو دیکھے
وہ جانشینِ فراعنہ ہے یہاں وہ نورِ خدا کو دیکھے
وہ روحِ موسیٰ دے دستِ بیضا میں یاں قضا کے عصا کو دیکھے
وہ سب رسن بازیوں پہ غالب کلیم کے اژدہا کو دیکھے
اسے بلاؤ... بڑی ضیافت کا ہے یہ ساماں
اسے بلاؤ... یہ خوانِ یغما! یہ لحمِ انساں!
اسے بلاؤ... نکال لے اپنے سارے ارماں!
اسی کی خاطر یہ بے گناہوں کے  خوں کا ساغر بھرا گیا ہے
اسی کی خاطر رکھا گیا ہے!
اسے بلاؤ! اسے اکہو، آکے اس کو پی لے!
اسے یہ ساغر اٹھانا ہوگا
لبوں سے اس کو لگانا ہوگا
سرور و کیف اس کا پانا ہوگا
اسی طے ظلم و ستم کے خوشے، چنے گئے خوب پکے پکے!
اسی کے خدام نے نچوڑے
اسے پکارو! یہ جام آبِ حیات پی لے!
اگر ہو ممکن تو اس کو پی کر ہزار ہا سال جی لے!
اجل سے چھپ کر، لحد سے بچ کر، جو راستہ مل سکے، وہی لے لے!
حفاظتِ جاہ کی یہ چالیں
عمرِ فانی کے بودے حیلے!
..................
اسے یہ کہہ دو!
وہ ان شہیدوں کی میتوں کو، کسی بھی منڈی میں بیچ ڈالے
یہ میتیں جو گراں بہا ہیں!
اور ان کے ہمراہ سب دعائیں، ان گنت نوحے اور نالے،
بہت سے گاہک ملیں گے اس کو!
لہو مسلماں کا بک رہا ہے، تو ایسی دولت خریدنے کو بتانِ کافر کی کیا کمی ہے؟
پڑوس ہی میں یہود بھی ہیں
بہ سمتِ مشرق ہنود بھی ہیں
حبش کے اہلِ صلیب بھی ہیں
کسی کے قدموں میں ڈھیر کرکے جو کچھ منافع ملے کما لے!
جہاں اسلام اور تڑپے! کچھ اور ملت کا دل دکھالے
جو فائدہ مل سکے، اٹھالے!
دو دور دیکھو!
پرے کہیں، کوہِ قاف سے بھی!
وہ لال دیووں کی بستیاں ہیں!
وہ دیو جن کو نہیں گوارا، کہیں بھی اسلام سر اٹھائے
کہیں چھڑے ذکرِ دینِ حق کا، کہیں محمدﷺ کا نام آئے
کسی وطن میں کوئی مغنی ، ترانہ الہام کا سنائے
جنہوں نے اک پوری قومِ مسلم کو اپنا نغمہ بنا لیا ہے
کہاں سمرقند اور بخارا!
کہاں ہوئے گم!
مفسروں اور محدثوں کی قدیم محفل اجڑ گئی ہے!
تھیں مسجدیں بھی، مدرسے بھی! بنا اب ان کی اکھڑ گئی ہے
پرانی باتوں کا ذکر اب کیا!
نئے نئے تجربے، مناسب!
یہ تینوں لاشیں ! اٹھاؤ، واں جا کے نظر کردو!
کہ لال دیووں کی دوستی کا، نوازشوں کا،عنایتوں کا
یہ خوب ہے ہدیۂ تشکر!
یہ پہلی قسطِ ادائیگی ہے!
یہ میتیں، یہ لہو، یہ آنسو، یہ آہیں، یہ نالے یہ زخم، گھاؤ
سمیٹ لے جاؤ دولتِ دل، خزانہ ہائے خودی اٹھاؤ
یہ آیتیں بھی، روایتیں بھی!
تمام ملت کی غایتیں بھی!
سبھی عقیدے، سبھی تصور، سبھی قوانین، سبھی شعائر
اٹھاؤ، لے جا کر نذر کردو!
ہمارے گھر میں، خود اپنے گھر کی، کوئی نشانی نہ رہنے پائے!
کسی کواس پر نہ بولنے  دو! کوئی کہانی نہ کہنے پائے!
خدا پرستوں کے خوں کے بدلے!
بتانِ کافر کی دلنوازی
عجب ہے یہ شانِ کارسازی!
...............
وہ شیخ بنّا کاجسم کشتہ
یہ انگلیاں سن ہیں ان سے ہرگز، کوئی بھی تحریر اب نہ ہوگی!
یہ ہونٹ ساکت ہوئے ہیں، ان سے کوئی بھی تقریر اب نہ ہوگی!
کتابِ حق کی یہ بزمِ ملت، وہ صاف تفسیر اب نہ ہوگی!
کبھی بھی قصرِ شہید میں وارد، خدا کی تقدیر اب نہ ہوگی!
’’خدا‘‘ یہ صد شوق بن کے رہیے، ذرابھی تغیر اب نہ ہو گی!
مگر یہ لاشیں، یہ تین لاشیں!
ہزاروں لاشیں!
عجیب سا ہے سکوت ان کا
سکوت بھی اک پیام سا ہے
یہ معجزانہ سکوت ان کا، کہ جیسے طوفاں اٹھ رہا ہو!
کہ جیسے اک زلزلہ سا آئے، کہ جیسے محشر سا اک بپا ہو!
..................
وہ شیخ بنّا کا کہ بنا پیارا
وہ قطب تارا
نہ وہ مرا تھا،نہ یہ مریگا
نہ وہ مٹا تھا، نہ یہ مٹے گا
نہ شیخ بنا ٹلا تھا حق سے ، نہ قطب تارا کبھی ٹلے گا
شہید سارے!
دلوں میں آباد ہوگئے ہیں
جہاں کہیں سے ضمیر زندہ، ضمیرِ زندہ میں بس رہے ہیں
فنا سے آزاد ہو گئے ہیں!
تمام صیاد ختم ہونگے!
یہ سارے جنگلے، یہ کل فصلیں، یہ سب صلیبیں، یہ سب سلاسل!
یہ تخت و تاج و نشان و پرچم
یہ قصر و بام اور مہر و خاتم
تغیّرِوقت، تیز دھارا
بہائے لے جا رہا ہے ان کو
جدھر مشیت کا ہے اشارہ
کسے خبر کب ہو شہر یارو، حسابِ جور و جفا تمہارا
کبھی تو سوچو کہ کیا ہے آخر، تمام جورو جفا کا حاصل!
پکارتی ہیں یہ تازہ لاشیں، یہ سب کا سب ہے طلسمِ باطل
نصیب میں تخت ہو کہ تختہ
گرے گا ہر کوئی لاش بن کر، قتیل کے ساتھ ، ساتھ قاتل
ہے قبر سارے سفر کی منزل!
پکارتی ہیں یہ تازہ لاشیں!
..................
یہ تازہ لاشیں!
بڑے ادب سے انہیں اتارو!
دبے دبے پاؤں،ہولے ہولے ، سبک سبک ، طرز سے چلو
یہاں! درود پڑھ کر، سلام کہہ کر، یہاں پہ نذر گزارو!
بڑے ادب سے انہیں اتارو!
یہ میتیں ہیں ہماری دولت!