Monday, 27 February 2012

مختصر درود پاک میں کیا اضافہ درست ہے؟

مختصر درود پاک میں کیا اضافہ درست ہے؟


تبلیغ والے ساتھی جب کوئی حدیث بیان کرتے تو کہتے ”حدیث پاک کا مفہوم ہے“ مجھے بہت غصہ آتا کہ یہ ایسی گول مول بات کیوں کہتے ہیں، صاف کیوں نہیں کہتے یہ ”حدیث پاک ہے“ حتی کہ مصر کی شائع کردہ ملاعلی القاری رحمہ اللہ کی کتاب الموضوعات الکبیر اپنی ضرورت اور بعض حوالوں کے لئے خریدی۔ اس کتاب کا شروع میں ایک طویل مقدمہ ہے، جس میں ۱۱۰۲ احادیث پاک صرف اس عنوان اور مطلب کی ہیں کہ اگر کسی نے یوں کہا کہ یہ “الفاظ حدیث پاک کے ہیں“ اور وہ نہ ہوئے یعنی نبی مکرم ا سے وہ الفاظ منسوب کئے جو حقیقت میں نبی پاک ا نے نہیں بولے تو ایسا شخص اپنی جگہ جہنم میں بنالے۔ اس وعید کو پڑھ کر تبلیغ والوں کی وہ بات سمجھ میں آئی جو وہ کہتے تھے ”حدیث پاک کا مفہوم یوں ہے“ اس کے بعد بندہ بھی حدیث کا حوالہ دیتے وقت محتاط ہوگیا اور یہی انداز اختیار کیا۔

ہمارے ہاں کالجوں، سکولوں میں اسلامیات کے عنوان سے تقریباً ہرکلاس میں احادیث رسول اور سیرة رسول وسیرة اصحاب رسول موجود ہے، ہرحدیث میں جہاں رسول مکرم ا کا اسم گرامی ہوگا، وہاں مختصر درود لکھا ہوگا اور یہی ایمان کا تقاضا ہے کہ لکھا اور بولاجائے۔ عشق ومحبتِ رسول ا کے اظہار کے طور پر جتنا اور جیسا طویل وعریض درود پاک بولیں، باعث خیر وبرکت ہے۔ مگر خود وہ الفاظ جو رسول پاک ا نے استعمال فرمائے، ان کو بولتے ہوئے یا لکھتے ہوئے ان میں اضافہ اور تبدیلی کیا لائقِ تعریف ہے یا تحریف ہے؟ مذکورہ کتابوں میں مثلاً: قال رسول اللہ ا لکھا جانے لگا ہے، بقول بعض اپنے کو بنیاد پرست یعنی اصل اقوال رسول کے ساتھ چمٹا ہوا سمجھنے کی وجہ سے مجھے حدیث پاک میں اضافہ ”علیہ“ کے ساتھ ”وآلہ“ عجیب سالگا ۔ بعض فاضل دوستوں کو توجہ دلائی تو انہوں نے کہا: اس میں تو زیادہ اجر ہے، پھر بعض اہل علم احباب نے اسم ذات ”اللہ“ کے ساتھ ”تعالیٰ“ کا اضافہ بھی کردیا ،کل مجموعہ ہوگیا ”صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم“ بندہ نے علماء کرام سے رجوع کیاتو جامعہ فاروقیہ کراچی کے صدر وفاق المدارس مولانا سلیم اللہ خان صاحب دامت برکاتھم نے جواب میں لکھا کہ: 
”ہم تو ”صلی اللہ علیہ وسلم“ ہی لکھتے اور بولتے ہیں اور یہی مسنون ہے، باقی ”وآلہ“ کا اضافہ معنی ومفہوم میں درست سمجھتے ہیں، تاہم حدیث پاک میں یا کتب حدیث وسیرت میں مستقلاً کوئی بھی اضافہ ناجائز سمجھتے ہیں“۔
دار نبی ہاشم کے ایک ادیب اور فقیہ مولانا سید کفیل شاہ بخاری نے میرے سوال پر جواب لکھا کہ مسنون مختصر درود ا ہے اور جیسے الفاظ حدیث میں کمی بیشی حرام ہے، اس مختصر درود میں بھی کمی بیشی کا کسی کو حق نہیں۔ راولپنڈی کے ایک مجاہد عالم نے بھی اسی بات پر اتفاق کیا، مزید یہ کہ ا میں اللہ فاعل ہے ”علیہ“ میں ضمیر مفعول (محلاً مجرور) ہے، اسم ضمیر کا عطف ضمیر پر کرنا ہو تو دوبارہ حرف جرعربی قواعد کی رو سے لازم ہے، لہذا ”علیہ وآلہ“ قواعد لغت کے اعتبار سے نادرست ہے ”علیہ وعلی آلہ“ قواعد عربیہ کی رو سے درست ہوگا۔ البتہ اسم ظاہر یعنی نام پر عطف بغیر حرف جر بھی لایاجانا درست ہے۔اس طرح ”صلی اللہ تعالیٰ علیہ وعلی آلہ وسلم“ قواعد کی رو سے درست ہوگا مگر اسم ذات کے بعد ”تعالیٰ“ کا اضافہ اور ”علیہ“ کے بعد ”وآلہ“ یا وعلی آلہ“ کا اضافہ سنت اور عمل اسلاف کے خلاف ہوگا۔ سیرة طیبہ کی تمام امہات الکتب اٹھاکر دیکھ لیں، آپ کو ہرجگہ مختصر دروداہی لکھاہوا ملے گا۔ صحاح ستہ اور حدیث کی تمام کتب اٹھاکر دیکھ لیں، حتی کہ تفسیر وتراجم قرآن تمام اٹھاکر دیکھ لیں، وہاں ا ہی لکھا ملے گا۔ آخر کیوں آج ہمیں ان اضافوں کی ضرورت پیش آگئی ”آل رسول“ کا ذکر قرآن کی تفسیر اور حدیث وسیرت اورتاریخ کی کتابوں میں جگہ جگہ ہے اور درست بھی ہے، مگر کیا چودہ صدیاں گزر گئیں ،پہلے لوگوں کو جو یقینا آج کے مسلمانوں سے اچھے اور حب رسول وآل رسول میں زیادہ تھے ان کو ”آلہ“ کا اضافہ کیوں نہ سوجھا؟ ہاں کچھ لوگ جو دین کو “پنج تن پاک“ اور ”آل رسول“ میں محدود مانتے ہیں، شیعہ کتب میں مختصر درود ”صلی اللہ علیہ وآلہ“ موجود ہے، وہاں پر ”وسلم“ کا کلمہ نہیں ہے اور وہ درود ابراہیمی کو بھی نہیں مانتے ، ان کا چھوٹا اور بڑا درود یہی ”صلی اللہ علیہ وآلہ“ ہے۔ کیا ایسا تو نہیں کہ انہی کی دیکھا دیکھی معذرت خواہانہ رویہ کے طور پر ہم نے ان کے اور اپنے درود کو ملا کر ایک نیا مرکب درود بنالیا ہے؟ علمائے اسلام سے پھر درخواست ہے کہ اگر یہ اضافہ شدہ درود وہی درست ہے تو براہ کرم صحاح ستہ میں درستی کروائیں اور لکھوائیں صلی اللہ تعالیٰ علیہ وعلی آلہ وسلم“۔

Thursday, 20 October 2011

یکساں نظامِ تعلیم ایک حقیقت یا خواب


یکساں نظامِ تعلیم ایک حقیقت یا خواب
 آپ جانتے ہیں کہ اﷲ تبارک و تعالیٰ نے انسانوں کو دنیاوی اعتبار سے بڑا چھوٹا بنایا ہے، اسی حقیقت کا اظہار فلاسفہء یونان اور فلاسفہء ہند نے  معاشرے کے مختلف طبقات بنا کر کیا۔ در حقیقت مختلف معاشرتی طبقات معاشرے کی گاڑی کو رواں رکھنے کے لیے ضروری ہیں۔ معاشرے کے اندر جہاں معلم کی ضرورت ہے وہیں ڈاکٹر کی بھی ضرورت ہے، وہیں ایک انجینئر بھی کل پرزوں کو رواں رکھنے کے لیے ضروری ہے، وہیں ایٹمی سائنسدان کی بھی ضرورت ہے، وہیں کارخانے میں کام کرنے والے مزدور کی بھی ضرورت ہے، اس سے کام لینے والے آجر کی بھی ضرورت ہے، حتیٰ کہ نالیاں صاف کرنے والے بھنگی کی بھی معاشرے کو ضرورت ہے، یہ سب مل کر معاشرے کو ایک مثالی معاشرہ بناتے ہیں۔ نہ تو پانچوں انگلیاں  برابر ہیں اور نہ ہی معاشرے کے باسی افراد برابر ہیں۔ سب ایک دوسرے کے ساتھ متعلق ہیں اور ایک دوسرے پر اثر انداز ہونے پر مقرر ہیں۔ اگر ہم ان کو بالجبر برابر کرنے پر تل جائیں تو معاشرے کو برقرار رکھنا ممکن نہ رہے گا۔
بھلا سوچئے تو سہی کہ اگر ہم ڈاکٹر کا نصاب تمام ملک کے طلباء کو پڑھانا شروع کر دیں تو کیا ہو گا؟ کیا سب طلباء میں تشخیص و علاج  کی صلاحیت پیدا ہو جائے گی؟ اور کیا وہ ڈاکٹر فیکٹریوں اور کارخانوں میں کام کرنے کے اہل ہوں گے؟ کیا وہ ڈاکٹر انجینئرنگ کے رموز و اوقاف سے واقف ہوں گے؟ نہیں ایسا ممکن ہی نہیں ۔ اسی طرح دوسرے شعبوں کو قیاس کریں تو یہ بات اظہر من الشمس ہو جاتی ہے کہ نظامِ تعلیم کا یکساں ہونا محض ایک خواب ہی ہے جو کہ کبھی حقیقت نہیں بن سکتا۔
اگر ہم اپنی معاشرتی تاریخ کا جائزہ لیں تو بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ زمانہ ماضی میں تاجر حضرات نے اپنے بچوں کو تجارتی رموز  سکھانے کے لیے باقاعدہ معلم رکھے ہوئے ہوتے تھے، جنہوں نے تاجروں کے بچوں کے لیے مخصوص نصاب تیار کر رکھا ہوتا تھا، اسی طرح علماء دین نے اپنے لیے ایک الگ مخصوص نصاب تیار کر رکھا ہوتا تھا۔ مختلف صنعتوں  سے وابستہ افراد نے اپنی صنعتوں اور فنون کے تدریس کے لیے الگ الگ نصاب وضع کر رکھے تھے۔  حتیٰ کہ بادشاہوں نے شہزادوں کے لیے جو اتالیق رکھے انہوں نے بھی شہزادوں کو رموزِ حکمرانی سکھانے کے لیے مخصوص نصاب  بنا رکھا تھا۔
اس طرح اگر ہم مذہبی حوالے سے دیکھیں تو  معلوم ہو گا کہ قرونِ اولٰی میں مدینہ طیبہ میں بھی مختلف طبقاب موجود تھے۔ کہیں اصحابِ صفہ جیسے درویش صفت لوگ نظر آتے ہیں تو کہیں حضرت عثمانِ غنیؓ اور حضرت عبدالرحمن بن عوف جیسے مالدار لوگ نظر آتے ہیں۔ کہیں غلام نظر آتے ہیں تو کہیں آقا نظر آتے ہیں۔ کہیں عرب کے ان پڑھ امّی نظر آتے ہیں تو کہیں حضرت  عبداﷲ بن مسعودؓ اور عبداﷲ بن عباسؓ جیسے عالم فاضل اشخاص نظر آتے ہیں۔ کہیں زمیندار طبقہ اور کہیں کشور کشا جرنیل نظر آتے ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بالآخر  لوگ یکساں نصابِ تعلیم کیوں چاہتے ہیں؟ اصل بات یہ ہے کہ جب تک ہم معاشرے کے تمام طبقات میں ایک دوسرے کے احترامِ باہمی اور ایک دوسرے کے حقوق و فرائض کے بارے میں معاشرتی شعور نہیں پیدا کرتے  اس وقت تک طبقاتی تفریق مسائل پیدا کرتی رہے گی۔ اگر نصابِ تعلیم کو طلباء کے رحجانات سے ہٹ کر ہندوانہ انداز کے ذات پات کے رنگ میں ڈھال کر طبقاتی تفریق  کو مستقل کرنے کی کوشش کی جائے تو یہ کوشش بذاتِ خود غلط ہی نہیں بلکہ معاشرے کی ترقی کے لیے زہرِ قاتل بھی ہو گی۔ اگر جولاہے کے بیٹے کے اندر ایک اچھا ڈاکٹر بننے کی صلاحیت ہو لیکن ایک اچھا جولاہا بننے کی صلاحیت نہ ہو ، اور ہم اسے زبردستی جولاہا بننے پر مجبور کریں تو یہ امر غلط ہے۔ اس طبقاتی تفریق کے نتیجے میں وجود میں آنے والے نظامِ تعلیم کو کوئی با شعور شخص اچھا نہیں کہہ سکتا۔
امید ہے کہ میرے اس خط سے یہ بات واضح ہو چکی ہو گی کہ یکساں نظام کا نعرہ لگانا محض ایک دیوانے کی بڑ ہے، علوم کی وسعت کے پیشِ نظر اب ہر میدان میں ماہرین کے لیے الگ الگ نظامِ تعلیم مرتب کیا جائے جس میں بچوں کے رحجان کے پیشِ نظر انہیں اپنی پسند کے میدانوں میں ترقی کے جوہر دکھانے کے مواقع دیے  جائیں۔  لیکن ایک بات واضح رہے کہ ابتدائی تعلیم ہر حال میں یکساں نصاب کے تحت اور ایک جیسے سوشیو اکنامک ماحول میں دی جائے تاکہ بچوں میں ایک دوسرے کو سمجھنے اور احترامِ باہم کے جذبات پیدا ہو سکیں۔

Tuesday, 18 October 2011

تبدیلی نظام کی ضرورت


آج ہر شخص نظام کی خرابی اور اس میں تبدیلی کی بات کرتا ہے، جبکہ بعض لوگ (نام نہاد دانشور) نظام کو بچانے کی بھی بات کرتے ہیں۔ آئے اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ نظام کی تبدیلی کس قدر ضروری ہے؟ اور کب تبدیلی ناگزیر ہو جاتی ہے۔ 
اصل بات یہ ہے کہ جیسے کپڑے پہننے کے بعد بوسیدہ ہو جاتے ہیں لیکن بعض اوقات پیوند لگا کر کچھ عرصہ ان سے استفادہ کیا جا سکتا ہے، لیکن ایک وہ وقت بھی آتا ہے کہ کپڑا اس قدر بوسیدہ ہو جاتا ہے کہ پیوند لگنے کے قابل بھی نہیں رہتا۔ ایسی حالت میں کپڑا نیا خریدنا ہی پڑتا ہے۔ یہی حال نظام کا بھی ہے جس قدر اچھا نظام بھی آپ بنا لیں وہ ایک وقت آئے گا بوسیدہ ہو جائے گا، لیکن کچھ اصلاحی اقدامات سے قابلِ عمل رہے گا، لیکن پھر بگاڑ جب حد سے گزر جائے تو پھر اس کی اصلاح کی کوئی صورت نہیں رہتی، پھر اس کو بہر حال بدلنا ہی پڑتا ہے۔
ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ انگریزوں نے یہاں جو نظام قائم کیا تھا وہ اپنی اچھائیاں دکھانے کے بعد بوسیدہ ہو چکا تھا جب ہمیں آزادی ملی اور ہم نے ایک سنگین غلطی یہ کی کہ ہم نے اسی بوسیدہ نظام کو برقرار رکھا حالانکہ اس قدر بڑے انقلاب کے بعد نیا نظام مرتب کر لیتے تو بہتر تھا۔ اب یہ نظام بوسیدہ تر ہو چکا ہے، اب اس کو بدلنا نا گزیر ہو چکا ہے، اگر باہر سے کوئی نظام اس سے بہتر آیا تو وہ اس کی جگہ لے گا، ورنہ اندر سے تبدیلی اٹھے گی اور نظام بہر حال تبدیل ہو گا کیونکہ نظام کے بغیر ملک قائم نہیں رہ سکتا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کونسا نظام کامیاب ہو گا، پاکستان کے حالات کے تناظر میں دیکھیں تو یہاں پر بہر حال اسلامی نظام کا آنا مقدر ہو چکا ہے، کیونکہ وہی ایک نظام ہے جس پر سب کا اتفاق ہو سکتا ہے، کوئی شخص یہ کہہ سکتا  ہے کہ علماء کے اختلافات اس کو ناممکن بنا دیں گے، لیکن اصل بات یہ ہے کہ علماء کے اختلاف بھی اسی دورِ غلامی کی پیداوار ہیں یہ اختلافات جس فرقے کے علماء غالب آئیں گے ان کے ساتھ بالآخر ہم آہنگ ہو جائیں گے کیونکہ علماء کا روزگار عوام کے ساتھ وابستہ ہے اور عوام مقتدر قوتوں کے تابع ہوتے ہیں۔ (الناس علی دین ملوکہم) کہ لوگ بادشاہوں کے دین پر ہوتے ہیں۔ 

Thursday, 6 October 2011

مسلمان ایک عظیم قوم ہیں... محمد مسلم


مسلمان عجیب قوم.........؟ محمد مسلم
چند روز قبل بندہ صبح سیر کے لیے نکلا تو میرے ایک استادِ محترم سرِ راہ ملے اور واک میں ساتھ ہو لیے۔ انہوں نے ایک بات کی جس پر میں ان کے ساتھ متفق نہیں ہو سکا۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلمان بھی عجیب قوم ہیں جنہوں نے اپنے پیغمبر کے اس دنیا سے رخصت ہونے کے تھوڑے ہی عرصے بعد ان کے نواسے کو شہید کر دیا۔ میرا موقف تھا کہ مسلمان ایک عظیم قوم ہیں جن کے پیغمبر کے خاندان نے حق کی خاطر قربانی دینے کی طرح ڈالی۔ کسی بھی ریاست، یا کسی بھی مذہب کے بانی کے اہلِ خانہ عام طور پر عیاش طبع ہوتے ہیں اور اپنے جدِ امجد کے نام پر دنیاوی منفعت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور بعض صورتوں میں تو اجداد کی میراث کو بانٹتے بانٹتے اس میراث کا حلیہ بھی بگاڑ دیتے ہیں خواہ وہ میراث علمی میراث ہی کیوں نہ ہو۔ اسلام ایک عظیم مذہب اس لیے ہے کہ اس کے پیغمبرﷺ نے اہلِ خانہ نے حق کی خاطر قربانی دے کر پوری امت کے لیے ایک عظیم یاد گار قائم کر دی ہے۔ اقتدار کے بھوکے تو ہر قوم اور قبیلے میں مل جاتے ہیں، باطل کے پجاری بھے عام ہوتے ہیں، حق کے پیرو بھی عام ہوتے ہیں لیکن حق کی خاطر ڈٹ جانے والے اور اس کے لیے جان قربان کرنے والے نہایت کم ہوتے ہیں اور یہی لوگ قوم کا سرمایہ افتخار ہوتے ہیں۔ اقتدار کو چھوڑ کے دوسروں کے حق میں دستبردار ہونے والے تاکہ قوم متحد ہو جائے بھی خال ہوتے ہیں اور ہم بحیثیت مسلمان خوش قسمت ہیں کہ نبی اکرمﷺ کے دونوں نواسوں نے عظیم الشان مثالیں قائم کی ہیں۔ ایک نے حق کی خاطر جان قربان کرکے اور دوسرے نے اقتدار قربان کر کے۔ اگر حضرت حسینؓ جان کی قربانی پیش نہ کرتے تو امت کے اندر حق کی خاطر لڑنے مرنے کا جذبہ کبھی پیدا نہ ہوتا۔ ہر جابر سلطان کے آگے کلمہ حق کہنے کی رسم کی عملی بنیاد تو انہی شہزادوں نے ڈالی ہے جب پر امت ہر دور میں کسی نہ کسی شکل میں کار بند رہی ہے جس کی مثال دوسری امتوں میں ملنا محال ہے۔
مسلمان ایک عظیم قوم ہیں، جو جس کو حق سمجھیں اس پر ڈٹ جاتے ہیں، پھر جان جاتی ہے تو جائے وہ سرِ مو اپنے موقف سے انحراف نہیں کرتے۔
مسلمان ایک عظیم قوم ہیں، جو حق کو باطل کے ساتھ خلط ملط نہیں کرتے، حق کو خالص رکھنے کی کوشش ہر دور میں کرتے رہتے ہیں۔
مسلمان ایک عظیم قوم ہیں، جن کے بڑوں نے حق کے لیے قربانیوں کی مثالیں قائم چھوڑی ہیں اور چھوٹے ان قربانیوں کو اپنے لیے مشعلِ راہ بنائے ہوئے ہیں۔
مسلمان ایک عظیم قوم ہیں جنہوں نے من حیث القوم کبھی منافقت کو قبول نہیں کیا، ہمیشہ کچھ لوگ امت میں موجود رہے ہیں جو منافقت اور باطل کا کھلم کھلا رد کرتے رہے ہیں، اور کر رہے ہیں۔
اختلاف کا حق ہر کسی کو حاصل ہے، یہ میرا ذوق تھا جس پر میں اپنے استادِ محترم سے اتفاق نہ کرسکا۔ میں اپنے خیال میں ٹھیک ہوں لیکن شاید غلط میرے استاد بھی نہیں ہیں۔ 

امتِ مسلمہ کی خود اصلاحی کی صلاحیت ... ... محمد مسلم


اس امت کی بنیاد ہی اﷲ تعالیٰ نے دین اور وحدتِ امت کے نام پر اٹھائی ہے، جب بھی یہ بنیاد کمزور ہونا شروع ہوتی ہے تو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش کا ایک تازیانہ برستا ہے تاکہ ہم لوگ پھر سے یک جان ہو جائیں، اس کے بعد امت واقعتاً یک جان ہو کر ایک بار پھر کامیابی کی راہ پر چل پڑتی ہے۔ اسلام کے اندر امام مہدی کی آمد کا تصور، عیسیٰ علیہ السلام کی آمد کا تصور، ہر صدی میں مجدد کی آمد کا تصور اسی قوتِ خود اصلاحی کا سبب بنتا ہے۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ امام مہدی کی آمد کے تصور نے ہر دور میں اسلام کو ایک نئی اصلاحی قوت سے نوازا ہے، قطع نظر اس سے کہ وہ واقعتاً امام مہدی بھی تھے یا نہیں۔ میں مانتا ہوں کہ امام مہدی کے مسئلہ پر امت مسلمہ میں بھی بہت سے اختلافات ہیں، بعض لوگ تو اس تصور کا مذاق بھی اڑاتے ہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ یہ تصور ایک زندہ و جاوید مذہب کے لیے ضروری ہے جس کے باعث اسلام کی لچک کو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق بنایا جاتا ہے، مسلمانوں میں موجود غلط اوہام اور خیالات کی اصلاح کی جاتی ہے ، انہیں گفتار سے کردار کی طرف لایا جاتا ہے، ان میں نفاق کو ختم کرکے یقین کو پختہ کیا جاتا ہے اور کسی ایک نقطہ پر پھر انہیں متحد کرکے دوبارہ احیاءِ اسلام کی راہ ہموار کی جاتی ہے۔ اگرچہ بعض اوقات مہدی اور مجدد کی آڑ میں بعض طالع آزماؤں نے اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے کی کوششیں بھی کیں جن میں حسن صباح اورمرزا غلام احمد قادیانی جیسے اشخاص بھی شامل ہیں۔ ہم سب اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ مہدی سوڈانی، مہدی نہ تھے لیکن انہوں نے برطانوی راج کے خلاف جو جدوجہد کی اور جو جذبہ مزاحمت افریقی مسلمانوں میں پھونکا اس کے سب معترف ہیں۔  اسی طرح عبداﷲ بن یاسین جس کے پیروکاروں میں یوسف بن تاشفین کا نام آتا ہے انہوں نے بھی دعوائے مہدویت کیا تھا، اور انہوں نے مغرب العربی (مراکش) اور اندلس کے علاقوں کے مسلمانوں کے لیے نہایت شاندار کارنامے سرانجام دیئے۔ اسی طرح مجدد کا معاملہ ہے، مجدد تو خیر کوئی بھی شخص ہو سکتا ہے اس پر اختلافات کم ہوتے ہیں کیونکہ مہدی تو ایک ہی سچا ہو گا جبکہ مجدد ہر صدی میں ایک آتا ہے جو کہ ان خرابیوں کی اصلاح کرتا ہے جو مسلمانوں میں کسی اصلاحی تحریک کے وجود نہ ہونے کے باعث پیدا ہوجاتی ہیں۔ بعض اوقات یہ خرابیاں محض وعظ اور درس و تدریس سے درست ہو جاتی ہیں لیکن بعض اوقات ان کی اصلاح اس طرح سے ہونا ممکن نہیں ہوتی تو پھر اصلاح امت کے لیے اﷲ تعالیٰ کسی بیرونی حملہ آور کو مسلط کر دیتے ہیں تاکہ یہ لوگ حالات کے تھپیڑے کھا کر سنبھل جائیں۔ فتنہ تاتار یا فتنہ مغرب یہ عذاب ہی نہیں بلکہ دراصل امت کے بگڑے ہوئے حصے کے لیے عملِ جراحی بھی تھا جس کے بعد امت نے کسی حد تک سنبھالا لیا اور وہ نزاعی بحثیں جنہوں نے امت کے بڑے طبقوں کو آپس میں لڑوا دیا تھا دم توڑ گئیں۔
کون تصور کر سکتا تھا کہ خلقِ قرآن، جبر و قدر کے مسائل، معتزلہ کی موشگافیاں ختم ہو پائیں گی، لیکن سب آہستہ آہستہ دم توڑ گئیں۔ کون تصور کر سکتا تھا کہ ہند میں ہندو مت کے اثرات کی آمیزش سے درباروں میں جو دینِ الٰہی پنپ رہا تھا کبھی ختم ہو پائے گا، لیکن یہ سب فتنے ایک مخصوص عرصے کے بعد غائب سے اصلاحی اسباب میسر آنے کے بعد دم توڑ گئے۔ یہی خود اصلاحی کی صلاحیت اسلام کو دوسرے ادیان سے ممتاز کرتی ہے کہ دوسرے ادیان بدلتے ہوئے تقاضوں کا ساتھ نہ دینے کے باعث یا تو اپنا حلیہ مکمل طور پر تبدیل کر کے اپنی بنیاد سے ہی منحرف ہو جاتے ہیں یا نئے تقاضوں سے کنارہ کش ہو کر خانقاہوں، اور عبادت گاہوں تک محدود ہو جاتے ہیں۔ یہی بنیادی فرق ہے جس کو نہ سمجھنے کے باعث یورپ ہم سے نالاں ہے۔ وہ یہ سمجھتا ہے کہ جیسے یورپ نے مذہبِ عیسوی سے جان چھڑا کر ترقی کی راہ کو پایا ہے ایسے ہی اسلامی مشرق بھی دینِ اسلام سے ناتا توڑ کر ترقی (بزعمِ خود) کی راہ پر چلے۔ وہ اس بات کو نہیں سمجھ پا رہے کہ مذہبِ عیسوی کے جمود اور اصل روح سے محرومی کے باعث وہ جدید تقاضوں کا ساتھ نہ دے سکتا تھا جبکہ اسلام اپنی لچک کے باعث جدید تقاضوں کے مطابق ڈھل جاتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اپنی بنیاد کو بھی نہیں ہلنے دیتا۔ یعنی اسلام نے جدت اور قدامت میں امتزاج پیدا کر رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے قرآن پاک میں احکامات اجمالاً بیان فرمائے ہیں اور حضورﷺ نے احادیث میں احکامات کو مجملاً ہی بیان فرمایا ہے تاکہ آنے والوں کے لیے نئی تشریح و تعبیر کا راستہ کھلا رہے اور دینِ اسلام محض جامد دین نہ بن کر رہ جائے۔ بعض اوقات صحابہ کرام زیادہ سوالات کرتے تو آپﷺ اس بات پر ناراض بھی ہوتے تھے تاکہ راستہ موجود رہیں۔
اسلامی قانون سازی کے میدان میں بھی اسی بات کو اہمیت حاصل ہوئی کہ جس مکتبہ فکر نے زیادہ لچک رکھی اس کو ہر دور کے حکمرانوں نے زیادہ ترجیح دی کیونکہ ان کو کاروبارِ حکومت چلانے کے لیے بہتر لچک اس میں مل جاتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ فقہ حنفی دوسری فقہوں کے مقابلے میں حکمرانوں کی زیادہ پسندیدہ رہی ہے کیونکہ یہ حاکمِ وقت کو کافی حد تک اجتہادی اختیارات دے دیتی ہے جبکہ دوسری فقہیں ظاہرِ قرآن و سنت کے ساتھ زیادہ شدت کے ساتھ پیوستہ رہنے کے باعث اس قدر لچک نہیں رکھتیں۔
موجودہ حالات میں امتِ مسلمہ اپنے زوال کی آخری حدوں کو چھو رہی ہے اور ہر تاریکی کے دامن میں روشنی کے خواب ہوتے ہیں، تاریک بادلوں کے پیچھے روشن خورشید چھپا ہوتا ہے۔ ہمیں پر امید رہنا چاہئے کہ امت پھر ایک بار پھر بیدار ہو رہی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے گفتار اور کردار سے اس بیداری کے لیے اپنا کردار ادا کرنا بھی ضروری ہے تاکہ قافلہ حجاز کے لیے حدی خوانوں کی کمی نہ ہو۔ امت کے مصائب پر مذاق نہ اڑائیے بلکہ ان سے چھٹکارے میں حصہ ڈالیں۔
شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

Friday, 30 September 2011

انگور اور شراب


انگور اور شراب
مشہور شامی مصنف عادل ابو شنب نے اپنی کتاب شوام ظرفاء میں عرب مُلک شام میں متعین فرانسیسی کمشنر کی طرف سے دی گئی ایک ضیافت میں پیش آنے والے ایک دلچسپ واقعے کا ذکر کیا ہے۔ اُن دنوں یہ خطہ فرانس کے زیر تسلط تھا اور شام سمیت کئی آس پاس کے مُلکوں کیلئے ایک ہی کمشنر (موریس سارای) تعینات تھا۔ کمشنر نے اس ضیافت میں دمشق کے معززین، شیوخ اور علماء کو مدعو کیا ہوا تھا۔
اس ضیافت میں ایک سفید دستار باندھے دودھ کی طرح سفید ڈاڑھی والے بزرگ بھی آئے ہوئے تھے۔ اتفاق سے اُنکی نشست کمشنر کے بالکل آمنے سامنے تھی۔  کمشنر نے دیکھا کہ یہ بزرگ کھانے میں ہاتھ ڈالے مزے سے ہاتھوں کے ساتھ کھانا کھا رہا ہے جبکہ چھری کانٹے اُس کی میز پر موجود ہیں۔ ایسا منظر دیکھ کر کمشنر صاحب کا کراہت اور غُصے سے بُرا حال ہو رہا تھا۔ نظر انداز کرنے کی بہت کوشش کی مگر اپنے آپ پر قابو نا پا سکا۔ اپنے ترجمان کو بُلا کر کہا کہ اِس شیخ صاحب سے پوچھے کہ آخر وہ ہماری طرح کیوں نہیں کھاتا؟
شیخ صاحب نے ترجمان کو دیکھا اور نہایت ہی سنجیدگی سے جواب دیا؛ تو تمہارا خیال ہے کہ میں اپنئ ناک سے کھا رہا ہوں؟
کمشنر صاحب نے کہا، نہیں ایسی بات نہیں، ہمارا مطلب یہ ہے کہ تم چھری اور کانٹے کے ساتھ کیوں نہیں کھاتے؟
شیخ صاحب نے جواب دیا؛ مُجھے اپنے ہاتھوں کی صفائی اور پاکیزگی پر پورا یقین اور بھروسہ ہے، کیا تمہیں بھی اپنے چھری اور کانٹوں پر کی صفائی اور پاکیزگی پر اتنا ہی بھروسہ ہے؟
شیخ صاحب کے جواب سے کمشنر جل  بھن کر رہ گیا، اُس نے تہیہ کر لیا کہ اس اہانت کا بدلہ تو ضرور لے گا۔
کمشنر کی میز پر اُس کے دائیں طرف اُسکی بیوی اور بائیں طرف اُسکی بیٹی بھی ساتھ بیٹھی ہوئی تھی۔ چہ جائیکہ کمشنر عربوں کی ثقافت، روایات اور دینداری سے واقف تھا، مزید براں اُس نے اس ضیافت میں شہر کے معززین اور علماء کو مدعو کر رکھا تھا۔ مگر  ان سب روایتوں کو توڑتے ہوئے اُس نے اپنے لئے شراب منگوائی اور شیخ صاحب کو جلانے کی خاطر نہایت ہی طمطراق سے اپنے لیئے، اپنی بیوی اور بیٹی کیلئے گلاسوں میں اُنڈیلی۔
اپنے گلاس سے چُسکیاں لیتے ہوئے شیخ صاحب سے مخاطب ہو کر کہا؛ سنو شیخ صاحب، تمہیں انگور اچھے لگتے ہیں اور تم کھاتے بھی ہو، کیا ایسا ہے ناں؟
شیخ صاحب نے مختصراً کہا، ہاں،۔
کمشنر نے میز پر رکھے ہوئے انگوروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا؛ یہ شراب ان انگوروں سے نکالی  ہوئی ہے۔ تم انگور تو کھاتے ہو مگر شراب کے نزدیک بھی نہیں لگنا چاہتے!
ضیافت میں موجود ہر شخص کمشنر اور شیخ صاحب کے درمیان پیش آنے والی اس ساری صورتحال سے آگاہ ہو چکا تھا۔ سب کے چہروں سے نادیدہ خوف کے سائے نظر آ رہے تھے اور ہر طرف خاموشی تھی۔ مگر اس شیخ صاحب کے نا تو کھانے سے ہاتھ رُکے اور نا ہی چہرے پر آئی مسکراہٹ میں کوئی فرق آیا تھا۔
کمشنر کو مخاطب کرتے ہو ئے شیخ صاحب نے کہا؛ یہ تیری بیوی ہے اور یہ تیری بیٹی ہے۔ یہ والی اُس سے آئی ہوئی ہے۔ تو پھر کیوں ایک تو تیرے اوپر حلال ہے اور دوسری حرام ہے؟
مصنف لکھتا ہے کہ اسکے بعد کمشنر نے فوراً ہی اپنی میز سے شراب اُٹھانے کا حُکم دیدیا تھا۔

یہ تحریر محترم جناب کاشف مجید صاحب کی سائٹ سے لی گئی ہے